:کیا آپ کو معلوم ہے اللہ تعالی نے روح کب پیدا فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم چار ایسے پورا اسرار عالمین کہ جس میں ہر ایک انسان ایک مقررہ وقت تک زندگی گزارتا ہے اس دنیا میں آنے والا ہر ایک انسان اپنی اسی زندگی کے بارے میں جانتا ہے جو زندگی وہ اس دنیا میں گزارتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جب سے انسان کی سب سے پہلی تخلیق ہوئی تب سے لے کر قیامت تک ہر ایک انسان بہت ساری زندگیاں جیتا اور مرتا ہے اور اس کو ہر ایک زندگی ایک دنیا کے بعد دوسری دنیا میں دی جاتی ہے۔
پیارے دوستو آج کی اس پوسٹ میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ ہماری زندگی کی شروعات کب سے ہوئی اور ہمیں کب تخلیق کیا گیا اور اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم کون سے عالم میں زندگی گزار کر آئے ہیں اور اس دنیا کے بعد ہم کس دنیا میں جا کر اپنی باقی زندگیاں گزاریں گے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ قیامت تک آنے والے ہر ایک انسان نے اللہ تبارک و تعالی کی ذات کا دیدار کب اور کیسے کیا اور اللہ تبارک و تعالی کی ذات سے ہم کلام ہو کر اس کی واحدانیت کا اقرار کب اور کیسے کیا۔
پیارے دوستو ان تمام تر سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں آج کی اس واقعہ میں ہم آپ کو بتائیں گے لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ہماری اس واقعہ کو آخر تک ضرور پڑھیے گا پیارے دوستو اللہ تبارک و تعالی کی تمام مخلوقات میں سے انسان وہ پہلی مخلوق ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالی نے اپنی خلافت کا شرف بخشا اور اپنی خلافت کے منصب پر فائض فرمایا اللہ تبارک و تعالی نے اس کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد اور زمین و آسمان بنانے کے بعد جب اس زمین کے اندر انسانوں کو آباد کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالی نے زمین کے مختلف حصوں سے مختلف قسم کی مٹی کو جمع کیا اور اس نے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا اور پھر اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے میں روح کو پھونکا اور اس طرح دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی۔
جو کہ اللہ تبارک و تعالی کے ایک برگزیدہ پیغمبر اور نبی ہیں اس طرح حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر پیش کیا اور حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ ان کو سلام کرو اور سنو کہ وہ کیا کہتے ہیں جب حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں کے سامنے گئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا اور فرشتوں نے جواب دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ اس سلام و جواب کے بعد اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ سلام کا یہی طریقہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہوگا۔
:حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے کیا عرض کی
اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں عرض کی کہ یا رب العالمین میری اولاد کون ہے اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے اپنا دست قدرت حضرت آدم علیہ السلام کی پشت پر پھیرا تو حضرت آدم علیہ السلام کے جسم مبارک سے ان تمام تر انسانوں کی روحیں نکلنا شروع ہو گئیں جو قیامت تک اس دنیا میں آئیں گے۔
اس وقت تمام انسان جسم کے بغیر صرف ایک روح کی شکل میں تھے اور یہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی سب سے پہلی تخلیق اور سب سے پہلی دنیا تھی اس طرح جب قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی روحیں ایک مقام پر جمع ہو گئیں تو اس وقت اللہ تبارک و تعالی نے ان تمام روحوں کو عقل اور شعور عطا فرمایا اور ان کے سامنے اپنی وحدانیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے۔
اللہ تبارک و تعالی ان سے ہم کلام ہوا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی سورہ اعراف کی آیت نمبر 72 میں ارشاد فرماتا ہے اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے اس کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ بنایا اور فرمایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے کہا کہ کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔
:عالم ارواح کے اندر دل و جان سے اپنا خدا مانا
یہ سب اس لیے تھا تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہمیں اس کی کسی نے خبر نہ دی پیارے دوستو یہ وہ پہلا کلام تھا جو اللہ تبارک و تعالی نے تمام انسانی روحوں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے ان سے فرمایا پیارے دوستو یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام انسانوں نے عالم ارواح کے اندر اللہ تبارک و تعالی کی ذات کو دیکھتے ہوئے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا تو چاہیے تو یہ تھا کہ اس دنیا کے اندر تمام انسان مسلمان پیدا ہوتے اور ایمان کی حالت میں ہوتے۔
لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ مسلمان ہیں اور کچھ لوگ کافر ہیں اس کی کیا وجہ ہے تو اس کے بارے میں علماء کرام ارشاد فرماتے ہیں کہ جب عالم ارواح کے اندر اللہ تبارک و تعالی نے تمام انسانوں سے کلام فرمایا اور ان سے عہد لیا تو اس وقت بعض روحیں ایسی تھیں کہ جنہوں نے دل و جان سے اللہ تبارک و تعالی کی واحدانیت کا اقرار کیا اور اللہ تبارک و تعالی کی ذات پر ایمان لے کر آئے اور بعض روئیں ایسی تھیں کہ جنہوں نے صرف زبان سے اس بات کا اقرار کیا لیکن دل سے اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کو نہ مانا۔
یہی وجہ ہے کہ جن روحوں نے اللہ تبارک و تعالی کی ذات کو عالم ارواح کے اندر دل و جان سے اپنا خدا مانا وہ اس دنیا کے اندر مومن اور ایمان کی حالت میں پیدا ہوئے اور ان کو اللہ تبارک و تعالی نے ایمان کی دولت عطا فرمائی اور جن روحوں نے اللہ تبارک و تعالی کی ذات کو عالم ارواح کے اندر صرف زبان سے اپنا خدا مانا لیکن دل سے اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت پر ایمان نہ لائے تو وہ اس دنیا کے اندر بدبخت اور کافر پیدا ہوئے۔
:کائنات میں چار ایسے عالم کا ہونا
پیارے دوستو اس کائنات کے اندر چار ایسے عالم ہیں کہ جن سے ہوتا ہوا انسان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے ان میں سے پہلا عالم ارواح ہے کہ جس کا ذکر ہم نے کیا عالم ارواح کے اندر تمام انسانوں کی پہلی تخلیق ہوئی اور تمام انسانوں کی روحوں کو پیدا کیا گیا عالم ارواح کے اندر تمام انسانی روحوں نے ایک مقررہ وقت تک زندگی گزاری اور عالمی ارواح میں زندگی گزارنے کے بعد تمام انسانی روحیں اپنے اپنے وقت کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں آتی گئی ۔
عالم دنیا
اور اس طرح عالم ارواح کے بعد ہر ایک انسان کی عالم دنیا کے اندر ایک نئی تخلیق ہوئی عالم دنیا عالم ارواح کے بعد یہ وہ دوسرا عالم ہے کہ جس کے اندر آج ہم زندگی گزار رہے ہیں اور اس عالم دنیا کے اندر بھی ہر ایک انسان کو ایک مقررہ وقت تک زندگی دی گئی ہے اس زندگی کے پورا ہونے کے بعد ہر ایک انسان نے اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق موت کا مزہ چکھنا ہے اور اس دنیا کو چھوڑ کر ایک نئی دنیا اور ایک نئے عالم میں چلے جانا ہے۔
عالم برزخ
پیارے دوستو اس دنیا کو چھوڑ کر مرنے کے بعد انسان جس عالم میں جاتا ہے اس کو عالم برزخ کہتے ہیں عالم دنیا کے بعد عالم برزخ یہ وہ تیسرا عالم ہے جہاں پر تمام انسانوں کی روحوں کو دنیا کے بعد ایک مقررہ وقت تک رکھا جائے گا اور یہاں پر بھی ہر ایک انسان ایک مقررہ وقت تک رہے گا پیارے دوستو جب کوئی بھی انسان اس دنیا میں مرتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد اس کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے اور قبر عالم برزخ کی سب سے پہلی منزل ہے اس طرح ہر ایک انسان عالم ارواح کے بعد اس دنیا میں آتا ہے اور اس دنیا میں زندگی گزارنے کے بعد وہ مر جاتا ہے اور مرنے کے بعد وہ عالم برزخ میں چلا جاتا ہے۔
عالم ارواح
پیارے دوستو اس طرح عالم ارواح میں پیدا ہونے والے تمام انسان قیامت تک اس دنیا میں آئیں گےاور اپنی زندگی گزاریں گے جب قیامت کا وقت قریب آئے گا تو اللہ تبارک و تعالی قیامت کو قائم فرمائے گا اور تمام انسان ہلاک ہو جائیں گے اس وقت اس روئ زمین پر کوئی بھی چیز باقی نہ ہوگی اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی ذات کے علاوہ کوئی بھی مخلوق باقی نہ ہوگی اس وقت اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرمائے گا کہ کون ہے آج کہ جس کی میرے علاوہ بادشاہی ہے اور کہاں گئے دنیا کے جبار اور متکبر لوگ قیامت کے قائم ہونے کے بعد ایک لمبا عرصہ سناٹے میں گزر جائے گا۔
عالم آخرت
اس وقت تمام انسان مر چکے ہوں گے اور تمام انسان عالم برزخ میں ہوں گے اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی جب چاہے گا تو تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اور یہ تمام انسانوں کی چوتھی زندگی ہوگی جس کو عالم آخرت کہا جاتا ہے اللہ تبارک و تعالی تمام انسانوں کو دوبارہ سے زندہ فرمائے گا اور تمام انسانوں کے میدان محشر کے اندر جمع کیا جائے گا اور تمام انسانوں کو ان کے اعمال کے بارے میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
اس دن جو لوگ اللہ تبارک و تعالی کے حکم کے مطابق زندگی گزار کر آئے ہوں گے اور اپنے رب کو راضی کر کے آئے ہوں گے ان کو اللہ تبارک و تعالی جنت کی خوشخبری سنائے گا اور وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانیاں کی اور اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت پر ایمان نہ لائے کفر و شرک اور بت پرستی کے اندر مبتلا رہے تو اس دن اللہ تبارک و تعالی ایسے لوگوں کو اور اپنے نافرمان لوگوں کو جہنم کے اندر داخل فرمائے گا۔
اس کے بعد موت کو ایک مینڈے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور جہنم کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا اس کے بعد جہنمی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوں گے اور جنتی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنتی ہوں گے اور یہ عالم آخرت تمام انسانوں کا آخری عالم اور آخری دنیا ہوگی اس کے بعد کسی کو موت نہ آئے گی خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالی کی رضا کو حاصل کر لیا اور جنت کے مستحق قرار پائے اور بد نصیب ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالی کی ناراضگی کو حاصل کیا۔
اور جہنمی بن گئے اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تبارک و تعالی ہمیں ایمان کے ساتھ اس دنیا سے اٹھائے اور جنت کے اندر اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا پڑوس نصیب فرمائے۔