:چڑیا اور اللہ کے ولی کا سچا واقعہ
بسم اللہ الرحمن نراہیم السلام علیکم آج میں آپ کو ایک چڑیا اور اللہ کے ولی کا سچا واقعہ سنانے جا رہا ہوں کہ ایک چڑیا نے اللہ کے ولی کو رزق اور دولت کا کیا راز بتایا اس لیے اگر آپ رزق اور دولت کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں یا آپ پھر دولت مند ہونا چاہتے ہیں.چڑیا نے بابا فرید کو دو راز بتایا ہے آئیے جانتے ہیں وہ دو راز ہیں کیا اگر واقعہ اچھی لگے تو اسے لائک اور اپنے دوستوں میں لازمی شیئر کیجئےآگےپڑھتے ہیں۔
بچپن سے ہی بابا فرید کو چڑیا پسند تھے
پیارے بہن بھائیو ہر جاندار نہ صرف اللہ تعالی کو پہچانتا ہے بلکہ وہ اپنے اپنے طریقے سے اللہ کی عبادت بھی کرتا ہے اور اس چیز کی دلیل ہمیں قرآن سے یوں ملتی ہے کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام نہ صرف جانوروں کی بولی سمجھ سکتے تھے بلکہ آپ جانوروں سے بات چیت بھی کیا کرتے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام اور چونٹی کا واقعہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہوگا بابا فرید گنج شکر رحمت اللہ علیہ جو کہ اللہ تعالی کے ایک نیک بندے اور ولی تھے اللہ تعالی نے جہاں آپ کو اور بہت سی صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازا تھا وہاں اللہ تعالی نے بابا فرید کو یہ نعمت بھی عطا فرمائی تھی کہ آپ نہ صرف جانوروں کی بولی سمجھ سکتے تھے بلکہ بابا فرید چڑیوں سے خاص کر بات چیت بھی کیا کرتے تھےبابا فرید کو بچپن سے ہی چڑیاں بہت زیادہ پسند تھیں اورآپ کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ آپ اپنے کھانے سے کچھ نہ کچھ بچا کر چڑیوں کو ضرور ڈالا کرتے تھے اگر آپ چاول کھاتے تو کچھ چاول کا حصہ بچا لیتے اور اگر آپ روٹی کھاتے تو روٹی کی کچھ برگیاں توڑ کر ان کے ٹکڑے کر کر چڑیوں کو ڈالا کرتے تھے۔
خشک سالی پڑی
ایک بار پاکپتن میں بہت زیادہ خشک سالی پڑی خشک سالی پڑھنے کی وجہ سے فصلیں بھی مرجھا گئیں اور بہت سے جانور اور پرندے مرنے لگے جب بابا فرید نے یہ دیکھا کہ پرندے مر رہی ہیں تو بابا فرید کو اس چیز کا بہت زیادہ دکھ اور صدمہ پہنچا اب بابا فرید کیا کرنے لگے کہ وہ اپنے کھانے کا آدھا حصہ کھا لیتے جبکہ آدھا حصہ پرندوں کو ڈالنے کے لیے رکھ لیتے یہاں تک کہ گھر میں جو اناج پڑا ہوتا وہ اناج بھی آپ پرندوں کو ڈالنے لگےجب بابا فرید کی والدہ نے یہ سب کچھ دیکھا تو انہوں نے بابا فرید کو سمجھایا کہ اگر ہم سب کچھ اپنا پرندوں کو ڈال دیں گے تو ہمارے لیے کچھ نہیں بچے گا اور اس کے بعد ہم کیسے گزارا کریں گے والدہ کے منع کرنے کے بعد بابا فرید بہت زیادہ غم زدہ ہو جاتے ہیں اور اپنی گھر کی چھت پر ایک کونے میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
بابا فرید کو دکھی دیکھ
اتنی دیر میں ایک چڑیا بابا فرید کے پاس آتی ہے اور بابا فرید کو دکھی دیکھ کر چڑیا پوچھنے لگتی ہے کہ آپ آج دکھی کیوں بیٹھے ہیں جس کے بعد بابا فرید چڑیا کو تمام صورتحال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی پڑ چکی ہے جس وجہ سے پرندے بھوک سے مار رہے ہیں اور جب انہوں نے پرندوں کی بھوک مٹانے کے لیے اپنے گھر کا اناج پرندوں کو ڈالنا شروع کیا تو ان کی والدہ نے اس چیز سے انہیں روک دیاجس وجہ سے وہ بہت زیادہ دکھی ہو چکی ہیں بابا فرید کی یہ بات سن کر چڑیا مسکرا دیتی ہے اور کہنے لگتی ہے کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہر جاندار کو اللہ نے پیدا فرمایا ہے اور اللہ کی یہ حکمت ہے کہ اللہ کسی جاندار کو پیدا بات میں فرماتے ہیں اس کا رزق پہلے ہی اس دنیا میں بھجوا دیا جاتا ہے اب اللہ تعالی نے جس کے حصے میں جتنا رزق لکھا ہے اس کو اتنا ہی رزق ملے گا چڑیا کا مزید کہنا تھا کہ میں دوسرے پرندوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہتی لیکن جب سے یہ دنیا بنی ہے آج تک کوئی چڑیا شام کو بھوکی نہیں سوئی چڑیا صبح اپنے گھونسلے سے بھوکی ضرور نکلتی ہے لیکن شام کو پیٹ بھر کر اپنی گھونسلے میں لوٹتی ہے بابا فرید چڑیا کی یہ بات سن کر بہت زیادہ حیران ہوئے اور چڑیا سے کہنے لگے کہ میں نے نیک سے نیک انسان دیکھا ہےجس نے زندگی میں کوئی گناہ بھی نہیں کیا لیکن میں نے اسے بھی بھوکا سوتے دیکھا ہے۔
کون سا ایسا وظیفہ
تو چڑیا کے پاس کون سا ایسا وظیفہ کون سا ایسا عمل ہے کہ آج تک کوئی بھی چڑیا شام کو بھوکی نہیں سوئی جس کے جواب میں چڑیا کا کہنا تھا کہ ہمیں دو ایسے رازوں کا پتہ ہے جن رازوں کی وجہ سے آج تک کوئی بھی چڑیا بھوکی نہیں سوئی اور اگر ان دو رازوں کو کوئی بھی انسان جان جائے تو اس پر بھی کبھی رزق کی تنگی نہیں آئے گی اس کو جتنی دولت جتنے رزق کی حاجت ہوگی اس سے کہیں زیادہ دولت اسے اللہ تعالی عطا فرما دیا کریں گےبابا فرید نے چڑیا سے پوچھا کہ یہ دو کون سے راز ہیں مجھے بھی ان رازوں کا بتاؤ چڑیا کا کہنا تھا پہلا راز ہے اللہ تعالی پر بے حد مضبوط توکل ہر چڑیا اللہ تعالی پر یہ توکل رکھتی ہے کہ جو ذات آج کے دن مجھے زندگی دے گا سانسیں دے گا اس نے میرا رزق بھی ضرور لکھا ہوگا یہ ہو نہیں سکتا کہ جو ذات آج کے دن مجھے زندگی دے وہ آج کے دن کا رزق مجھ تک نہ پہنچائے۔
اور یہ چڑیا کا اللہ تعالی پر مضبوط توکل ہی ہوتا ہے کہ چڑیا کبھی بھی اپنے گھونسلے میں کھانا ذخیرہ نہیں کرتی جبکہ چڑیا کے علاوہ جتنے بھی پرندے ہیں کوا ہو جائے چیل ہو جائے یا دیگر جتنے پرندے ہیں وہ برے وقت کے لیے اگر انہیں کوئی فالتو کھانا مل جائے تو وہ اپنے گونسلے میں اٹھا کر لے آتے ہیں اور جمع کرتے ہیں تاکہ اگر کسی دن انہیں کھانا نہ ملے تو وہ اپنا جمع کیا ہوا کھانا کھا کر بھوک مٹائیں۔
گھونسلے میں کھانا جمع نہیں کرتی
لیکن چڑیا کبھی بھی اپنے گھونسلے میں کھانا جمع نہیں کرتی پھر چاہے چڑیا کے سامنے جتنا مرضی دانہ دھنکا پڑا ہو چڑیا صرف اتنا ہی دان ان کا کھائے گی جس سے اس کی بھوک مٹ جائے اور جیسے ہی اس کی بھوک مٹ جائے گی وہ اڑ جائے گی پھر جو کوئی بھی اللہ تعالی پر آپنا توکل مضبوط کر لیتا ہے تو اللہ تعالی کبھی بھی اسے مایوس نہیں ہونے دیتے چڑیا کا کہنا تھا کہ جو دوسرا راز ہے وہ یہ ہے کہ میں اس ایک لفظ کے بارے میں جانتی ہوں جس لفظ کی برکت سے جس کی فضیلت سے اللہ تعالی نہ صرف انسانوں کو پرندوں کو بلکہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوق ہے اس تمام مخلوق کو رزق عطا فرماتی ہے اور وہ لفظ ہے سبحان اللہ سبحان اللہ کا کہنا زبان پر جتنا ہلکا ہے سبحان اللہ میزان پر اتنا ہی زیادہ بھاری ہے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی شخص ایک دن میں ایک ہزار نیکی کیسے کرے جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ 100 مرتبہ سبحان اللہ کہے اس کی ایک ہزار نیکی لکھ دی جائے گی۔
اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتے
اور ایک ہزار گنا مٹا دیے جائیں گے اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کے کیے گئے گناہ ہوتے ہیں جو کہ مختلف مصیبتوں اور پریشانیوں کی شکل میں اس کے اگے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں پیارے بہن بھائیو ہمارے کچھ گناہ رزق کی تنگی کی شکل میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں تو کچھ مصیبتوں پریشانی ہو تو کچھ بیماریوں کی شکل میں چڑیا کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص کو رزق کی تنگی کا سامنا ہے یا پھر وہ رزق اور دولت کے حوالے سے پریشان رہتا ہے یا پھر وہ شخص بہت زیادہ دولت کا مالک بن جانا چاہتا ہے۔
تو اسے چاہیے کہ وہ صرف دو کام کر لے پہلا کام وہ یہ کرے کہ وہ اپنا توکل اللہ تعالی پر بے حد مضبوط کر لے وہ شخص اس بات کو اپنے دل میں بٹھا لے کہ جس ذات نے مجھے زندگی دی ہے ہاتھ پاؤں آنکھیں صحت جیسی نعمت عطا فرمائی ہے اس نے میری قسمت میں رزق اور دولت بھی ضرور لکھی ہوگی اگر اس نے کل کے دن کے لیے میری زندگی لکھی ہوگی تو میری قسمت میں رزق بھی ضرور لکھا ہوگا جبکہ دوسرے نمبر پر وہ شخص اس چیز کو اپنا معمول بنا لے کہ ایک دن میں کم از کم سو بار سبحان اللہ ضرور پڑھے اگر کوئی بھی شخص اللہ تعالی پر اپنا توکل مضبوط کر لیتا ہے اور ایک دن میں 100 مرتبہ سبحان اللہ پڑھنے کو اپنا معمول بنا لیتا ہے تو یقین مانیں اس کی قسمت اور تقدیر ایسے بدلے گی جیسے بدلنے کا حق بنتا ہے۔
غربت کب امیری میں بدل
اس کی غربت کب امیری میں بدل جائے گی اس کی پریشانیاں کب خوشی اور راحت میں بدل جائیں گی اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اس شخص کو وہاں وہاں سے رزق دولت اور پیسہ ملنے لگے گا جہاں سے اس نے سوچا تک نہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر اس کی تمام دعائیں قبول ہونے لگیں گی اکثر بہن بھائی یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالی کا دیا ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی تو ایسے بہن بھائی جو اپنی دعائیں قبول کروانا چاہتے ہیں میں انہیں بھی یہی کہوں گا اور جو لوگ دولت مند ہونا چاہتے ہیں رزق اور دولت کی تنگی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انہیں بھی میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ پیارے بہن بھائیوں سب سے پہلے تو اللہ تعالی پر اپنا ایمان مضبوط کر لیں توکل مضبوط کر لیں اور اس کے بعد سبحان اللہ کا ورد ایک دن میں 100 مرتبہ ضرور کیا کریں 100مرتبہ سبحان اللہ پڑھنے میں تقریبا دو منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا لیکن یہ دو منٹ پوری آپ کی زندگی اور تقدیر کو بدل کر رکھ دیں گے۔