ایک اللہ کا ولی درویش کا واقعہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم معزز خواتین و حضرات سیدنا ابراہیم بن بشار رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں میں حضرت سیدنا ابراہیم بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت بابرکت میں چھ سال اور کچھ ماہ رہا آپ رحمت اللہ تعالی علیہ اکثر خاموش رہتے اور ہم سے کبھی بھی کوئی بات نہ پوچھتے بلکہ ہم ہی ان سے کلام کرتے ہمیں ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے منہ میں کوئی چیز ڈال کر کلام کرنے سے روک دیا گیا
ہو میں جب بھی اپ کو دیکھتا تو آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی حالت ایسی ہوتی جیسی اس ماں کی ہوتی ہے جس کا بچہ گم ہو گیا ہو اور مجھے دنیا میں سب سے زیادہ اپ رحمت اللہ تعالی علیہ غمگین نظر آتے اور ایسے لگتا جیسے آپ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں اور آپ کے کلیجی کو غموں نے چھلنی کر دیا ہو آپ کے پاخانہ اور پیشاب میں خون کی امیزش ہوتی ہمیں اس کی وجہ یہی نظر اتی کہ شدت غم کی وجہ سے آپ پر رحمت اللہ تعالی علیہ کی یہ حالت ہو گئی ہے
آپ رحمت اللہ تعالی علیہ ہمیں وصیت کرتے ہوئے فرماتے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو جسے تم نہیں جانتے اسے جاننے کی کوشش نہ کرو اور جسے جانتے ہو اس سے بھی دور رہنے میں ہی عافیت ہے اسی طرح کی نصیحتیں آپ رحمت اللہ تعالی علیہ فرمایا کرتے تھے حضرت سیدنا ابراہیم بن بشار رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابراہیم بن آدم رحمت اللہ تعالی علیہ کے ساتھ میں حضرت سیدنا ابو یوسف الغصولی اور حضرت ابو عبداللہ سنجاری رحمت اللہ تعالی علیہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے
چاروں ساحل سمندر
چنانچہ ہم چاروں ساحل سمندر پر پہنچے اور کشتی میں سوار ہو گئے جب کشتی چلنے لگی تو اس میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا سب مسافر ایک ایک دینار کرایا ادا کرے چنانچہ سب نے کرایا دینا شروع کیا ہماری حالت یہ تھی کہ ہمارے لباس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی شے نہ تھی جب وہ شخص ہمارے پاس آیا تو حضرت سیدنا ابراہیم بن آدم رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے اور کشتی سے اتر کر ساحل پر چلے گئے تھوڑی ہی دیر کے بعد آپ واپس ائے تو آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے پاس چار ایسے دینار تھے
جن کی چمک سے انکھیں چندھیا رہی تھی آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے ان دیناروں سے کرایہ ادا کیا کشتی کے لنگر اٹھا دیے گئے اور سفر شروع ہو گیا ہماری کشتی کے ساتھ دوسرے ممالک اسکندریہ عسقلام تے نیاز اور دقیات وغیرہ کی کشتیاں بھی سفر کر رہی تھی اس طرح تقریبا 16 یا 17 کشتیوں نے ایک ساتھ سفر شروع کیا قافلے جانب منزل رفع دوا تھے کہ ایک رات اچانک تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا
سمندر میں بوچال سا آگیا طوفان کا سلسلہ شروع ہو گیا موجوں میں اضطراب بڑھتا ہی جا رہا تھا ہمیں اپنی ہلاکت کا یقین ہو چکا تھا سب لوگوں نے ہاتھ اٹھائے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگے حضرت سیدنا ابراہیم بن آدم رحمت اللہ تعالی علیہ اپنی چادر اوڑے اطمینان و سکون سے ایک جانب سو رہے تھے ایک شخص نےجب آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کو اس طرح سوتے دیکھا تو آپ کے قریب آ کر کہنے لگا اے اللہ کے بندے سمندر میں طوفان آیا ہوا ہے
موت کے منہ میں پہنچ
ہم سب موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں پھر بھی آپ اطمینان سے سو رہے ہیں اپ بھی ہمارے ساتھ مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے یہ سن کر اپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے اسمان کی طرف سر اٹھایا ہم نے نہ تو آپ کے ہونٹ ہلتے دیکھے اور نہ ہی آپ کے منہ سے کوئی کلام سنا یکا یک ایک غیبی آواز گونجی کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا اے آنے والی شدید ہواؤں اور اے مضطر موجو تم ٹھہر جاؤ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے اوپر ابراہیم بن آدم رحمت اللہ علیہ موجود ہے
یہ آواز گونج رہی تھی لیکن معلوم نہیں یہ آواز آ کہاں سے رہی تھی نہ تو سمندر میں کوئی شخص نظر آرہا تھا نہ ہی آسمان کی طرف کوئی ایسا شخص موجود تھا جو یہ صدا بلند کر رہا ہو پھر اس آواز کے گونجتے ہی ہوائیں بالکل بند ہو گئے اندھیرا چھٹ گیا اور سمندر میں سکون آگیا ایک بار پھر ساری کشتیاں ایک ساتھ سفر کرنے لگی پھر سب کشتیوں کے مالکوں نے اپس میں ملاقات کی ان میں سے کسی نے کہا کیا تم نے سمندری طوفان کے وقت غیبی آواز سنی تھی
سب نے بیک زبان کہا ہاں ہم نے آواز سنی تھی پھر سب نے مشورہ کیا کہ جب ہم ساحل پر پہنچیں گے تو ہر شخص کو اس کے رفقا کے ساتھ کر دیں گے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ غیبی آواز کس شخص کے متعلق تھی پھر ہم اس عظیم شخص سے دعا کروائیں گے جس کی برکت سے ہم ہلاکت سے بچ گئے جب کشتیاں ساحل سمندر پر پہنچی تو سب لوگوں نے مطلوبہ قلی کی طرف پیش قدمی کی جب قریب پہنچے تو معلوم ہوا یہ قلع تو بہت مضبوط ہے اور اس کے دروازے لوہے کے ہیں
آپ رحمت اللہ علیہ نے یہ کلمات کہے
بظاہر اس کو فتح کرنا بہت دشوار تھا سب شش و پنج میں تھے بالاخر حضرت سیدنا ابراہیم بن آدم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے لوگوں جس طرح میں کہوں تم بھی اسی طرح کرنا پھر آپ رحمت اللہ علیہ نے یہ کلمات کہے لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ لوگوں نے بھی یہ پاکیزہ کلمات کہے یکا یک قلع کی دیوار سے ایک بہت بڑا پتھر گر پڑا آپ رحمت الل علیہ نے دوبارہ فرمایا جس طرح میں کہوں تم بھی ایسے ہی کہنا چنانچہ آپ رحمت اللہ علیہ نے پھر یہی کلمات فرمائے لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ لوگوں نے بھی یہ کلمات دہرائے
پھر ایک بہت بڑا پتھر قلع کی دیوار سے گر گیا آپ رحمت اللہ علیہ نے تیسری بار بھی یہی کلمات دہرائے اور لوگوں نے بھی کہے تو دیوار سے پھر ایک اور پتھر گر گیا اور دیوار میں اتنا شگاف ہو گیا کہ بآسانی اس سے گزرا جا سکے آپ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا اے لوگو جاؤ اللہ تعالی کا نام لے کرقلع میں داخل ہو جاؤ اللہ رب العزت برکت عطا فرمائے گا لیکن میں تمہیں ایک خاص بات کی نصیحت کرتا ہوں تم کسی پر ظلم مت کرنا
اور حد سے تجاوز نہ کرنا میری اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا لوگ آپ پر رحمت اللہ علیہ کی نصیحتیں سننے کے بعد میں داخل ہو گئے وہ کہتے ہیں کہ وہاں سے ہمیں بغیر جہاد کیے اتنا مال غنیمت حاصل ہوا کہ ہماری کشتیاں بوجھ سے بھر گئی پھر ہم واپس ہوئے اور تمام کشتیاں دوبارہ ایک ساتھ چلنے لگی جب اللہ نے ہمیں خیریت سے اپنی منزل تک پہنچا دیا تو حضرت سیدنا ابراہیم بن آدم رحمت اللہ علیہ اپنے رفقاء کے ساتھ بندرگاہ کی طرف روانہ ہوئے
مال غنیمت کی تقسیم
آپ نے مال غنیمت کی تقسیم پر کوئی اعتراض نہ کیا حالانکہ ان لوگوں نے ہمیں مال غنیمت میں سے ایک دینار بھی نہ دیا تھا ہم نے باقی مسافروں میں سے ایک سے پوچھا تمہیں کتنا کتنا حصہ مال غنیمت ملا ہے اس نے کہا ہم میں سے ہر ایک کو تقریبا 120 سونے کی اشرفیہ ملی ناظرین کرام قربان جائیں بزرگوں کی شان بے نیازی پر کہ جن کی برکت سے فتح ہوئی ان کو ایک درہم بھی نہ ملا لیکن پھر بھی مطالبہ نہ کیا وہ دنیاوی دولت کے خواہاں نہ تھے
بلکہ انہیں تو صرف اللہ رب العزت کی رضا مطلوب تھی حضرت عمر بن خطاب نے ابھی بن کعب سے تقوی کے بارے میں سوال کیا تو ابھی بن کعب نے ان سے پوچھا کیا آپ کانٹوں والے راستے پر کبھی چلے ہیں عمر بن خطاب نے کہا کیوں نہیں انہوں نے پھر سوال کیا تو پھر آپ نے کیا کیا عمر بولے میں تیز چلا اور میں نے بچنے کی کوشش کی ابھی بن کعب نے کہا یہی تقوی ہے دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبت ہو جانا اور تقوی اختیار کرنا درحقیقت ایک کٹھن امر ہے
اخلاص کی دولت سے مالا مال
حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بہت دولت تھی لیکن وہ پھر بھی زاہد تھے اصل یہ ہے کہ اگر کسی کے دل کی کیفیت یہ ہو کہ دنیا اور مال دیتے ہوئے اسے زیادہ خوشی ہوتی ہو بنسبت دنیا یا مال کے لینے کے تو یہ زاہد ہے کیونکہ دنیا کے مال سے کوئی محبت نہیں ہے نعمت وہ چیز جو حاصل ہونے پہ خوشی تو ہوتی ہے لیکن ایک زاہد کو تو نعمت سے کوئی خاص خوشی نہیں ہوتی
جتنی اسے نعمت بانٹ کر ہوتی ہے وہ مال کے آنے سے پریشان نہیں ہوتا کہ فتنہ آگیا لیکن مال کے اپنے پاس جمع رہنے پر خوب بے چین رہتا ہے اللہ تعالی ہمیں بھی ان بزرگوں کے صدقے اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور دنیاوی مال کی وبال سے بچائے