:عورت کے حیض کی ابتدا کب اور کیوں ہوئی
بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ناظرین حیض کیا ہے عورتوں کو حیض کی سزا کیوں ملی عورت کے حیض کی ابتدا کب اور کیوں ہوئی یہود و نصاری حز والی عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کرتے تھے اور قران مجید فرقان حمید میں حیض والی عورت کے حوالے سے کیا حکم ہے حیض کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا یہی ہماری آج کی پوسٹ کا موضوع ہوگا اور آج ہم آپ کو عورت کے حیض کے ایام اور مسائل کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات فراہم کریں گے
ناظرین قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 222 میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ناظرین صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے
:یہود میں سے جو کوئی عورت ایام سے ہونا
یہود میں سے جو کوئی عورت ایام سے ہو جاتی یعنی عورت کو حیض ہوتا تو وہ لوگ نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے نہ تھے بلکہ گھروں میں سونا اور بیٹھنا تک چھوڑ دیتے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس حوالے سے پوچھا کہ حیضہ عورتوں کے بارے میں یہودیوں کا تو یہ عمل ہے ہم کیا کریں
تب اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی یہ لوگ آپ سے ہیز کے بارے میں پوچھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تم اپنی عورتوں کے ساتھ جب کہ وہ حیضہ ہوں سوائے صحبت کے جو چاہے کیا کرو جب یہ خبر یہودیوں کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے جس دینی امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس میں ہماری مخالفت ضرور کرتے ہیں
یہود کی زبانی یہ سن کر دو صحابہ کرام حضرت اسحیت رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عباد رضی اللہ تعالی عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہودی ایسا کہہ رہے ہیں یعنی انہوں نے یہودیوں کا کلام نقل کیا اور پھر یہ کہا اگر آپ اجازت دیں یہودیوں کی موافقت کے لیے ہم اپنی عورتوں کے پاس ایام حیض میں رہنا سہنا چھوڑ دیں
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور ہمیں یہ گمان ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان دونوں پر خفا ہو گئے ہیں وہ دونوں نکل کر چل دیے ان کے جاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس کہیں سے تحفتن دودھ آیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں کو بلایا اور ان دونوں کو دودھ پلایا تاکہ انہیں یہ پتہ چلے کہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان سے ناراض نہیں
:حیض سے مراد وہ خون ہے جو بالغ غیر حملہ عورت کے رحم سے آئے
ناظرین حیض سے مراد وہ خون ہے جو بالغ غیر حملہ عورت کے رحم سے آئے اور اس کا سبب بیماری نہ ہو اسی خون کے سبب کسی عورت میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اگر کسی عورت کو حیض یعنی ماہواری نہ آتی ہو تو وہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے حیض کی ابتدا کے حوالے سے صحیح قول یہ ہے کہ اس کی ابتدا حضرت حوا سلام اللہ علیہا سے ہوئی حضرت حوا نے جنت میں وہ پھل کھایا جس کو منع فرمایا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ بیماری لگ گئی
بعض حضرات اس کی ابتدا بنی اسرائیل سے اور بنی اسرائیل کی عورتوں سے قرار دیتے ہیں مگر اس قول کو امام بخاری نے رد کیا ہے ناظرین حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت 10 دن اور 10 راتیں ہیں اگر کسی کو تین دن اور تین رات سے کم خون آیا تو وہ حیض نہیں بلکہ استخادہ ہے اسی طرح اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے کسی کو دس دن اور دس رات سے زیادہ خون آیا تو وہ جو دس دن سے زائد ہوگا وہ بھی استحادہ ہے
ناظرین استحادہ سے مراد عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والا وہ خون ہے جو نہ حیض کا خون ہے نہ نفاس کا بلکہ کسی بیماری کی وجہ سے آتا ہے ناظرین حدیث کی بعض کتابوں میں اس مضمون کی روایات بھی موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں میں جانے اور مردوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت تھی وہاں انہوں نے ایڑیاں اونچی کر کے مردوں کی طاق جھانک شروع کر دی چنانچہ انہیں مسجد جانے سے روک دیا گیا اور ان پر حیض مسلط کر دیا گیا
یہ روایت مصنف عبدالرزاق اور مسند اسحاق میں حضرت عبداللہ ابن مسعود حضرت اسماء بن ابی بکر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے ان میں بنی اسرائیل کے عہد سے عورتوں میں حیض کی ابتدا کی جو بات کہی گئی ہے وہ درست نہیں ہے بعض صحیح احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ عورتوں میں حیض کی ابتدا روز اول سے ہے
:راستے میں انہیں حیض آ گیا تو وہ اس اندیشے سے رونے لگی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حجت الوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلیں راستے میں انہیں حیض آ گیا تو وہ اس اندیشے سے رونے لگی کہ اب وہ مناسک حج ادا کرنے سے محروم ہو جائیں گی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے انہیں سمجھاتے ہوئے فرمایا یہ ایسی چیز ہے جس سے اللہ رب العزت نے اولاد آدم میں عورتوں کے لیے لازم کر دیا ہے
اس حالت میں تم بھی وہی سب کرو جو حاجی کرتا ہے صرف پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرو اسی طرح ایک حدیث حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تھی کہ مجھے حیض آنے لگا میں وہاں سے اٹھ گئی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت کیا تو میں نے بتایا کہ مجھے حیض آنے لگا ہے
آپ نے فرمایا یہ ایسی چیز ہے جس سے اللہ تعالی نے آدم کی بیٹیوں پر لازم کر دیا ہے ناظرین نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالی نے آدم کی بیٹیوں پر لازم کیا ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حیض کا اغاز بنی اسرائیل کی عورتوں سے ہوا اس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد زیادہ معتبر ہے ناظرین اگر مسائل کی بات کی جائے تو ایام حیض میں عورت کے لیے نماز روزہ تلاوت جائز نہیں
:ان ایام میں مسلسل خون نہیں آتا تو
اگر ان ایام میں مسلسل خون نہیں آتا تو بھی یہ ایام ان کی عادت کے مطابق حیض میں شمار ہوں گے جس کی وجہ سے غسل کرنے سے بھی طہارت حاصل نہیں ہوگی لہذا ان ایام میں ذکر و اذکار اور دعا کر سکتی ہیں نماز روزہ تلاوت نہیں کر سکتی ناظرین اسی طرح رمضان المبارک میں عورت کے حیض یعنی ماہواری کے ایام میں جتنے روزے قضا ہوں گے رمضان المبارک کے بعد ان روزوں کی قضا لازم ہوگی
ناظرین اسی طرح نماز کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ عورت کے لیے ناپاکی یعنی حیض کی حالت میں نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ معاف ہے یعنی قضا بھی لازم نہیں البتہ عورت اگر جنابت کی حالت میں ہو یعنی اس پر غسل لازم ہو خواہ ہم بستری کی وجہ سے یا حیض کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اس وقت نماز نہیں پڑھ سکتی جب تک کہ غسل نہ کر لے اس حالت میں اگر کوئی نماز پڑی گئی تو اس کی قضاء لازم ہوگی ناظرین اس سے امید کے ساتھ اجازت دیجئےپھر ملیں گے اور ایک نئے پوسٹ کے ساتھ اللہ حافظ