:ملکہ بلقیس اور اس کا ایمان لانے کا واقعہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم آج سے ہزاروں سال قبل جزیرہ عرب کے جنوبی علاقوں میں یمن کے گرد و نواہ میں ایک شہر آباد تھا جسے صبا کہتے تھے اور وہاں آباد لوگوں کو قوم سبا کہہ کر پکارا جاتا تھا یہاں کے لوگ نہایت ہی نعمتوں اور راحتوں میں تھے ہر طرف لہلات فصلیں اور پھل سے لدے درخت موجود تھے۔
مگر یہ قوم شرک میں مبتلا تھی اور سورج کی پوجا کیا کرتی تھی جب وہاں کے بادشاہ شراجیل بن مالک کی موت ہوئی تو اس کی بیٹی بلقیس نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی بعض مورخین نے لکھا ہے کہ بلقیس کے والدین میں سے ایک جنات میں سے تھے مگر اس نظریے کی کوئی واضح دلائل نہیں ملتی ملکہ بلقیس ایک قابل عورت تھی جس نے یمن پر نو سال نہایت ہی خوبصورتی سے حکومت کی دنیا کے بیشتر علاقوں میں جو تجارت ہوتی تھی وہ صوبائیوں کے ہاتھ میں تھی یہی وجہ تھی کہ یہ قوم نہایت ہی دولت مند تھی۔
مگر یہ وہ زمانہ تھا جب مشرق سے مغرب تک ایک عظیم موہد بادشاہ کی طاقتور حکومت اور جاہ و جلال کا ڈنکا بجتا تھا جسے تاریخ میں سلیمان ابن داؤد کے نام سے جانا جاتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت دنیا کے بیشتر ممالک میں تھی جس کا دارالخلافہ یروشلم شہر تھا۔
آپ کو ہوا جنات چرند و پرند اور جانوروں پر حکمرانی عطا کی گئی تھی ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دربار لگایا تو جن و انس جانور اور پرندے سب کے سب حاضر ہوئے مگر ان کا چہیتا پرندہ حدحد غائب تھا آپ نے پوچھا حدحد کہاں ہے جب وہ نظر نہ آیا تو سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اگر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی مناسب وجہ پیش نہ کر سکا تو اسے ذبح کر دیا جائے گا۔
ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حدحد حاضر ہو گیا پوچھا گیا تم کہاں تھے حدحد نے بڑے احترام سے جواب دیا اے اللہ کے پیغمبر میں اڑتے اڑتے ایک ایسے ملک پہنچ گیا جہاں لوگ شرک میں مبتلا دیکھے وہ آگ اور سورج کی پوجا کرتے ہیں ان کی ایک رانی ہے جسے وہ بلقیس کے نام سے پکارتے ہیں وہ ایک تخت جو بہت بڑا ہوا کرتا تھا جس پر بیٹھ کر وہ حکومت کرتی تھی۔
اس کے تخت میں قیمتی ہیرے جواہرات لال زمر جڑے ہوئے ہیں اور اس کے پاس تمام شاہیر سامان آرائش و نمائش کے موجود ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا اگر تمہاری بات سچ ہے تو میرا خط اس ملکہ تک پہنچاؤ تاکہ وہ شرک سے باز آ جائے اور خط پہنچانے کے بعد وہاں بیٹھ کر سنو کہ وہ کیا رد عمل اختیار کرتی ہے اور پھر آکر مجھے خبر دینا حضرت سلیمان علیہ السلام نے خط روانہ کیا جو کچھ یوں تھا۔
:حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ملکہ بلقیس کو خط
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے یہ عزت والا خط سلیمان ابن داؤد کی جانب سے ملکہ بلقیس کی طرف ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے لیے سلامتی ہے مجھ پر غلبہ کی خواہش نہ کرو میرے مقابلے میں سرکشی اختیار نہ کرو بلکہ فرمانبردار اور مطیع ہو کر میرے پاس آجاؤ یہ خط دراصل ملکہ صبا اور اس کی قوم کی طرف دعوت اسلام تھی۔
حدود نے یہ خط لے جا کر ملکہ بلقیس کی گود میں گرا دیا ملکہ کے دربار میں اس وقت تین سو کے قریب سردار بیٹھے تھے انہوں نے جب یہ خط پڑھا تو طیش میں آگئے اور کہا کہ یہ ہماری توہین ہے ہمیں اس کا سخت جواب دینا چاہیے مگر ملکہ بہت سمجھدار تھی اس نے انہیں سمجھایا کہ خط سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ کوئی عام شخص نہیں خدا کا کوئی پیغمبر ہے لہذا ہمیں حکمت سے کام لینا چاہیے اس نے کہا کہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف ایک تحفہ بھیجتی ہوں۔
اگر انہوں نے قبول کر لیا تو وہ بادشاہ ہے میں اس سے جنگ کروں گی لیکن اگر انہوں نے تحفہ قبول نہ کیا تو میں اس کی پیروی کروں گی کیونکہ وہ نبی ہیں حدحد یہ ساری گفتگو سن رہا تھا اس نے آکر حضرت سلیمان علیہ السلام کو ساری بات بتا دی حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہونے والے راستے پر سونے چاندی کی اینٹوں کا فرش بچھا دیا جائے راستے کے دونوں جانب سونے کی عجیب الخلقت جانور کھڑے کر دیے جائیں وزرا اور امال سلطنت کی تمام کرسیوں کو سونے کا کر دیا جائے۔
دربار کو ہیرے جواہرات سے مزین کیا جائے ادھر بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے تحائف روانہ کیے جن میں سونے کی اینٹیں جواہرات غلام کنیزے اور ملکہ کا ایک خط بھی تھا جب یہ تمام تحائف لے کر قاصد حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے یہ سب دیکھا تو شرمندہ ہوئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کے قاصدوں سے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔
مگر دیکھ لو جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے لہذا تمہارا تحفہ تمہیں مبارک ہو اب تم اپنے تحائف کے ساتھ واپس جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہنا کہ ہمارا انتظار کرے ہم ایک زبردست لشکر لے کر آئیں گے جب یہ خبر ملکہ بلقیس کو پہنچی تو وہ سمجھ گئی کہ واقعی یہ اللہ کے نبی ہے لہذا اس نے جنگ کے بجائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہو کر اپنی اطاعت کا یقین دلانے کا فیصلہ کیا جب حضرت سلیمان علیہ السلام تک یہ پیغام پہنچا تو آپ نے اپنے درباریوں سے کہا تم میں سے کون ہے جو ان کے مطیع ہو کر آنے سے پہلے ملکہ کا تخت میرے پاس اٹھا لائے۔
:پلک کو جھپکانے سے پہلے تخت کو لے آنا
ایک دیو ہیکل جن نے کہا آپ کے دربار کو برخواست کرنے سے پہلے میں اسے لا سکتا ہوں میں اس کام کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانتدار بھی ہوں پھر ایک اور شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں یہ تخت آپ کو آپ کے پلک جھپکنے سے قبل ہی لا دوں گا پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو پکار اٹھے یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائیں کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرتا ہے تو اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور اگر کوئی ناشکری کرے تو میرا پروردگار بے نیاز ہے اور اپنی ذات میں بزرگ و برتر ہے۔
مفسرین کے مطابق وہ شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کا کوئی دوست تھا جس کا نام آصف ابن برخیہ بتایا جاتا ہے اور بعض نے لکھا کہ وہ آپ کا خالہ زاد بھائی تھا کہا جاتا ہے کہ اس تخت کی لمبائی 80 ہاتھ عرض 40 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ تھی اس میں موٹی سرخ یاقوت سب زمر جڑے ہوئے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس تخت میں رد و بدل کر دیا اور اسے پہلے سے بھی بہتر بنا دیا۔
جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کیا تمہارا تخت بھی اسی طرح کا ہے اس نے کہا یہ تو گویا ہو بہو وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا اور ہم فرمانبردار ہو چکے ہیں بلقیس کے آنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایسی امانت بنانے کا حکم دیا جس کا فرض شیشے کا ہو نیچے پانی جاری ہو پانی میں مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور ہو حضرت سلیمان علیہ السلام اس عمارت میں اپنی شاہی تخت پر جلوہ افروز تھے اور شیشے کے نیچے سے پانی اپنی پوری اب و تاب سے بہہ رہا تھا جبکہ اس کے اوپر شیشہ نظر نہیں آتا تھا بلقیس کو اس محل میں لایا گیا۔
جب اس نے فرش کو دیکھا تو سمجھی کہ یہ پانی کا ایک حوض ہے لہذا اپنی پنڈلیاں سے کپڑا اٹھا لیا سلیمان علیہ السلام نے کہا یہ تو شیشے کا چکنا فرش ہے تب وہ شرمندہ ہوئی اور بول اٹھی اے میرے پروردگار میں سورج کی پوجا کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی ہوں اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت قبول کر لی لہذا بلقیس پر یہ ظاہر ہو گیا کہ جس طرح وہ شیشے کے صحن کو پانی کا لہریں مارنے والا گہرا ہوس سمجھ بیٹھی اسی طرح اس نے اور اس کی قوم نے سورج کی چمک اور دمک دیکھ کر اسے معبود اور خدا سمجھ بیٹھے اسے اپنی فاش غلطی پر نہایت ہی شرمندگی ہوئی بعض مورخین نے لکھا کہ اس واقعے کے بعد ملکہ صبا مسلمان ہو گئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے نکاح میں آگئی جبکہ بعض نے لکھا کہ آپ نے بلقیس کو یمن واپس بھیج دیا اور اس کے لیے وہاں تین بڑے محل تعمیر کروائے۔