قیامت کے دن بچوں کا حساب کیسے ہو گا، کافر کی اولاد کا حساب کیسے ہو گا؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ پیارے دوستو اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ہی کسی کی سفارش منظور کی جائے گی اور نہ ہی کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ ہی لوگ کسی کی مدد حاصل کر سکیں گے پیارے دوستو قیامت کا دن ایک ایسا ہالناک دن ہوگا کہ جس دن حمل والی عورتوں کے حمل ضائع ہو جائیں گے اور اس دن نفسا نفسی کا یہ عالم ہوگا کہ ماں اپنے بیٹے کو بھول جائے گی اور اولاد اپنے ماں باپ کو بھول جائے گی اور اس دن کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ہر ایک کو اپنے حساب و کتاب کی پڑی ہوگی اور ہر ایک انسان اپنے اعمال کے مطابق اپنے انجام کو پہنچا دیا جائے گا۔
پیارے دوستو اس بات پر ہر ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ اس نے مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھنا ہے اور اپنے اعمال کا بدلہ لینا ہے لیکن آج کی اس پوسٹ میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ مرنے کے بعد بچوں کا حساب و کتاب کیسے ہوگا اور کیا بچوں سے قبر کے اندر سوال و جواب کیے جائیں گے یا نہیں اور کیا مرنے کے بعد بچوں کو بھی ان کی قبروں میں عذاب ہوگا یا نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ مرنے کے بعد کافروں اور مشرکوں کے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور کیا کافروں اور مشرکوں کے بچے مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یا نہیں اور اگر کوئی معصوم بچہ کفر کر دے تو کس عمر میں اس بچے کے کفر کا اعتبار کیا جائے گا پیارے دوستو ان تمام تر سوالات کے جوابات قران و حدیث کی روشنی میں آج کی اس پوسٹ میں ہم آپ کو بتائیں گے لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ہماری اس پوسٹ کو آخر تک ضرور پڑھیے گا۔
پیارے دوستو اس دنیا کو چھوڑنے کے بعد انسان کو سب سے پہلے جس گھر میں داخل کیا جاتا ہے وہ قبر ہے قبر آخرت کی منازل میں سے سب سے پہلی منزل ہے اور قبر سے ہی ہر انسان کا حساب و کتاب شروع ہو جاتا ہے جو قبر کے امتحانات کو پاس کر لیتا ہے تو اس سے آگے آنے والے امتحانات اس کے لیے آسان ہوتے ہیں اور جو قبر کے امتحانات کو پاس کرنے میں ناکام رہتا ہے تو آنے والے امتحانات اس سے کہیں زیادہ سخت اور دشوار ہوں گے۔
:اگر کوئی نابالغ بچہ بالغ ہونے سے پہلے پہلے مر جائے تو کیا اس سے بھی قبر میں حساب و کتاب لیا جاتا ہے
پیارے دوستو جب بھی کوئی انسان مرتا ہے تو اس کو قبر کے اندر دفنا دیا جاتا ہے پھر چاہے وہ بچہ ہو بوڑھا ہو یا نوجوان اس طرح جیسے ہی اس مرنے والے شخص کو دفنایا جاتا ہے تو دو فرشتے اس کی قبر میں داخل ہو جاتے ہیں جن کو منکر نکیر کہا جاتا ہے یہ فرشتے اس مرنے والے شخص سے سوالات کرتے ہیں اور وہ مرنے والا شخص ان فرشتوں کے جوابات دیتا ہے اگر مرنے والا شخص ان فرشتوں کے سوالوں کے جواب ٹھیک دے دیتا ہے تو اس کو جنت کی خوشخبری سنا دی جاتی ہے اور اگر مرنے والا شخص ان فرشتوں کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا تو اس کی قبر کو جہنم کا گڑھا بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑوں میں سے ایک گڑا اور قبر آخرت کی منازل میں سے سب سے پہلی منزل ہے جس نے اس کو آسانی سے پار کر لیا تو آگے کا معاملہ اس سےآسان ہے اور جو اس منزل کو پار نہ کر سکا تو آگے کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔
پیارے دوستو اب بات کرتے ہیں کہ اگر کوئی نابالغ بچہ بالغ ہونے سے پہلے پہلے مر جائے تو کیا اس سے بھی قبر میں حساب و کتاب لیا جاتا ہے اور اس سے بھی سوال و جواب کیے جاتے ہیں تو اس کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں بعض روایات کے مطابق چھوٹے بچوں سے قبر کے اندر سوال و جواب کیے جائیں گے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی قبر کے اندر ان مرنے والے بچوں کی عقلوں کو مکمل کر دے گا اور پھر یہ مرنے والے بچے اپنی کامل عقل کے مطابق فرشتوں کے ان سوالوں کے جوابات دیں گے اور دوسری روایت کے مطابق بچوں سے قبر میں کوئی حساب و کتاب نہیں لیا جائے گا کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اور وہ غیر مکلف ہوتے ہیں لہذا اسی وجہ سے بچوں سے قبر میں کوئی سوال و جواب نہیں کیا جائے گا۔
پیارے دوستو اب بات کرتے ہیں ان بچوں کی جو کافروں کے گھر میں پیدا ہوئے یا مشرکوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور بالغ ہونے سے پہلے پہلے مر گئے تو کیا ایسے بچے مشرک اور کافر کہلائیں گے اور قبر کے اندر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا تو اس کے متعلق حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے مشرکین اور کافروں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی نے جب ان بچوں کو پیدا کیا تو اللہ تبارک و تعالی خوب جانتا تھا کہ ان بچوں نے بڑے ہو کر کیا کرنا ہے اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ایک باغ میں ہیں اور ایک لمبے قد کا آدمی اس باغ میں چل رہا ہے اور اس کے اس پاس بہت سارے بچے کھیل رہے ہیں اور اس آدمی کا قد اتنا لمبا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس آدمی کو دیکھنے کے لیے اپنی گردن کو اوپر بلند کرتے ہیں گویا کہ وہ شخص آسمانوں سے باتیں کر رہا ہو تو حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں پوچھا اور ان بچوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔
:ضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے ارد گرد جو بچے کھیل رہے تھے
تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم آپ نے جس شخص کو دیکھا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے ارد گرد جو بچے کھیل رہے تھے وہ وہ بچے ہیں جو فطرت سلیم پر پیدا ہوئے اور بالغ ہونے سے پہلے پہلے فطرت سلیم پر ہی مر گئے یعنی وہ بچے اسلام پر ہی پیدا ہوئے اور بالغ ہونے سے پہلے پہلے اسلام پر ہی مر گئے تو ایسے بچوں کے ساتھ آخرت کے اندر وہی سلوک کیا جائے گا جو ایک مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ کیا جاتا ہے کیونکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے اور بعد میں بڑے ہو کر وہ کافر یا مشرک بنتا ہے جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو اس کو بعد میں یہودی یا نصرانی یا عیسائی بنا دیتے ہیں یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے اور بعد میں بڑے ہو کر اس کے ماں باپ اس کو کافر مشرک یا عیسائی بنا دیتے ہیں اگر کوئی ایسا بچہ جو کافروں کے گھر میں پیدا ہوا لیکن وہ بالغ ہونے سے پہلے پہلے مر گیا تو وہ اسلام پر ہی مرے گا۔
:بچے کی کس عمر میں بچے کے کفر کا اعتبار کیا جائے گا
پیارے دوستو بات کرتے ہیں کہ بچے کی کس عمر میں بچے کے کفر کا اعتبار کیا جائے گا تو اس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ بچہ جب عاقل اور بالغ ہو جائے اور اچھے اور برے کی پہچان کرنے لگ جائے تو اس عمر میں اگر کوئی بچہ کفر کرتا ہے تو اس کے کفر کا اعتبار کیا جائے گا اور وہ بچہ کافر ہوگا اور علماء کرام بیان فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ سات سال کی عمر میں کفر کرتا ہے تو اس کے کفر کا اعتبار کیا جائے گا اور وہ کافر ہو جائے گا پیارے دوستو بات کرتے ہیں کہ کافروں اور مشرکوں کے بچے جنت میں جائیں گے یا نہیں اور اگر یہ جنت میں جائیں گے تو جنت کے کون سے مقام ان کو رکھا جائے گا۔
پیارے دوستو اس کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں بعض روایات کے مطابق جیسے مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے اسی طرح وہ بچے بھی جنت میں جائیں گے جو پیدا تو کافروں کے گھروں میں ہوئے لیکن بالغ ہونے سے پہلے پہلے وہ فوت ہو گئے تو اللہ تبارک و تعالی ان معصوم بچوں کو بھی جنت میں داخل فرمائے گا کیونکہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کسی کو جنت یا جہنم میں داخل نہیں فرمائے گا جب تک کہ اس کو اعمال کا مکلف نہ بنا دے اور بچے اعمال کے مکلف نہیں ہوتے لہذا اسی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی معصوم بچوں کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمائے گا اور بعض روایات کے مطابق کافروں اور مشرکوں کے معصوم بچے جنت میں تو داخل ہوں گے لیکن یہ جنت میں جنتی مسلمان بچوں کے ماتحت ہوں گے اور ان کے خادمین کی ڈیوٹی سرانجام دیں گے اور یہ مسلمان جنتی بچوں کے خادمین ہوں گے اور بعض علماء کرام اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی بہتر جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کافروں کے بچوں کے ساتھ کیا سلوک فرمائے گا ۔
پیارے دوستو ان تمام تر روایات میں سے سب سے صحیح روایت یہ ہے کہ جو بھی بچہ بالغ ہونے سے پہلے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی ان کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جگہ عطا فرماتا ہے اور بالغ ہونے سے پہلے پہلے مرنے والے تمام بچے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کفالت میں ہوتے ہیں اور ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس رکھا جاتا ہے پھر چاہے وہ مسلمانوں کے بچے ہوں یا کافروں کے بچے اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان تمام تر برائیوں سے ہمیں بچائے جن برائیوں کی وجہ سے پہلی قومیں ہلاک ہوئیں اور اللہ تبارک و تعالی کے دردناک عذابات کی مستحق قرار پائیں